بانو قدسیہ کا نام کون نہیں جانتا۔ وہ ادبی ناول نگاری میں ایک نمایاں ترین نام ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے ناول راجہ گدھ کو اردو ادب کے بڑے ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
"راجہ گدھ" (۱۹۸۱ء) موضوع کے لحاظ سے تو منفرد ہے لیکن زبان بھی بے حد رواں اور سلیس ہے۔ بانو نے ثقیل الفاظ سے اجتناب برتا ہے۔ چونکہ ناول کا زمانہ جدید ہے اور اس کے کردار اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہیں اس لئے وہ اپنی گفتگو میں انگریزی زبان کے الفاظ بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ اردو زبان کے متبادل لفظ کو استعمال نہ کرکے انہوں نے فضا میں مصنوعی پن نہیں آنے دیا۔
بانو قدسیہ نے اپنے شہرہ آفاق ناول " راجہ گدھ " میں پاکستانی معاشرے کی سائیکی کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔ مصنفہ کے خیا ل میں دیوانگی کی اصل وجہ عشقِ لاحاصل نہیں بلکہ رزقِ حرام ہے ۔ اور یہ رزق حرام کھانے کی ہی وجہ ہے کہ ہم دیوانے ہو کر اسفل درجے پر آ پہنچے ہیں. ان کا موضوع ایک ایسا معاشرہ ہے جو عشق لاحاصل کا شکار ہے۔ جو روحانی سے زیادہ جسمانی حوالے رکھتا ہے۔ اور اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ روحانی نظریات کو چھوڑ کر محبت کا نظریہ اپنانا چاہیے ۔