آرامی زبان
آرامی | |
---|---|
ܐܪܡܝܐ, ארמית Arāmît | |
تلفظ | arɑmiθ, arɑmit, ɑrɑmɑjɑ, ɔrɔmɔjɔ |
مقامی | ایران ، عراق ، اسرائیل ، سریا ، ترکی ، اردن ، فلسطین |
مقامی متکلمین | (500,000 بحوالہ 1994–1996) |
آرامی خط ، سریانی خط ، عبرانی خط ، مندائی خط ، عربی خط (vernacular) with a handful of inscriptions found in Demotic[1] and Chinese[2] | |
زبان رموز | |
آیزو 639-3 | مختلف: arc – Imperial Aramaic (700–300 BC) oar – Old Aramaic (before 700 BC) aii – آشوری جدید آرامی aij – Lishanid Noshan amw – مغربی جدید آرامی bhn – Bohtan Neo-Aramaic bjf – Barzani Jewish Neo-Aramaic cld – آشوری جدید آرامی hrt – Hértevin huy – Hulaulá jpa – Jewish Palestinian Aramaic kqd – Koy Sanjaq Surat lhs – Mlahsô lsd – Lishana Deni mid – Modern Mandaic myz – Classical Mandaic sam – Samaritan Aramaic syc – Syriac (classical) syn – Senaya tmr – Jewish Babylonian Aramaic trg – Lishán Didán tru – Turoyo xrm – Armazic (0–200 AD) |
arc Imperial Aramaic (700–300 BC) | |
oar Old Aramaic (before 700 BC) | |
myz Classical Mandaic | |
xrm Armazic (0–200 AD) | |
jpa Jewish Palestinian Aramaic (200– AD) | |
کرہ لسانی | 12-AAA |
عراق، شام، کنعان، فلسطین، فونیشیا اور جزیرہ نمائے عرب میں جو عرب اقوام ہیں، وہ تمام سامی الاصل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تمام قومیں سام بن نوح کی اولاد ہیں۔ اس لیے سامی کہلاتی ہیں۔ ان ملکوں کی مختلف زبانوں (موجودہ قدیم دونوں) کو سامی زبانیں کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک سیریا یا شام کی زرخیزی اوراس کے درالحکومت (دمشق کی دلفریبی کے باعث اس ملک کو ارم یا باغ ارم بھی کہتے ہیں۔ اس لیے سامی یا سریانی کا تیسرا نام آرامی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت نوح کے بیٹے سام کا مسکن شام ہی تھا اس لیے تمام سامی قوموں کی مختلف بولیوں کا اجتماعی نام سامی، سریانی اور آرامی ہے۔ زبانوں کے سامی گروہ میں فونیقی، اسیری، کلدی، عبرانی، بابلی،حطیطی، زبانیں شامل ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت فلسطین، کنعان میں آرامی زبان ہی بولی جاتی تھی۔ جو عبرانی زبان کی ایک شاخ ہے۔ موجودہ عربی قدیم آرامی ہی کی ایک ترمیم شدہ صورت ہے۔ البتہ رسم الخط میں تبدیلی ہو گئی ہے۔ لیکن یہ تبدیلی اسلام سے بہت پہلے رونما ہوئی تھی۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکہ مکرّمہ اور اس کے گرد دوسرے قصبوں میں مقیم مسیحی آرامی بولتے تھے۔ لہذا قرآن کریم کے آیات میں کئی آرامی نژاد الفاظ موجود ہیں۔ اس کی کئی وجوھات ہو سکتی ہیں —ایک تو یہ کہ چونکہ قرآن شریف کئی مواقع پر اہلِ کتاب سے مخاطب ہے اس لیے ان ہی کی زبان کے کلمات موجود ہیں تاکہ وہ ان آیات کو اپنی کتب میں موجود ان موضوعات کی روشنی میں بہتر سمجھ سکیں۔ دوسرا اس لیے کہ مکہ میں ابھرتی ہوئی مسلم امّت عرب کافروں کی نصبت اہلِ کتاب سے شناختی لحاظ سے زیادہ منسلک تھی اور قرآن میں موجود یہ لفظ اس بات کی تائیید کرتے ہیں۔
حوالہ جات
[ترمیم]ویکی ذخائر پر آرامی زبان سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |