حجر اسود
حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازہً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنے جاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جا سکتا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے یہ فرمایا:
إني أعلم أنک حجر، لا تضر و لا تنفع. ”بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔ تو نہ نفع دیتا ہے نہ نقصان۔“
تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا:
بلیٰ یا أمیر المومنین ، إنه یضر و ینفع.
” کیوں نہیں ، امیر المومنین ! یہ تو نفع و نقصان دیتا ہے۔“
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 457/1، شعب الإیمان للبیهقي: 3749)
موضوع (من گھڑت): یہ جھوٹی روایت ہے۔
1: اس کو گھڑنے کا کارنامہ ابو ہارون عبدی نامی "متروک" و "کذاب" راوی نے سر انجام دیا ہے۔ اس کے بارے میں:
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والأکثر علیٰ تضعیفهٖ أو ترکهٖ.
”اکثر محدثین نے اسے ضعیف یا متروک قرار دیا ہے۔“ (میزان الاعتدال: 173/3)
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مضعف عند الأئمة.
”ائمہ محدثین کے ہاں یہ ضعیف قرار دیا گیا۔“(تفسیر ابن کثیر: 21/3)
اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرائیل نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا۔ 606ء میں جب رسول اللہ کی عمر35 سال تھی، سیلاب نے کعبے کی عمارت کو سخت نقصان پہنچایا اور قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی لیکن جب حجر اسود رکھنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑا ہو گیا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہو۔ رسول اللہ نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں اس کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔ سب سے پہلے عبداللہ بن زبیر نے حجر اسود پر چاندی چڑھوائی۔ 1268ء میں سلطان عبد الحمید نے حجراسود کو سونے میں مڑھ دیا۔ 1281ء میں سلطان عبدالعزیز نے اسے چاندی سے مڑھوایا۔
حادثات
[ترمیم]696ء میں جب حضرت عبد اللہ بن زیبر خانہ کعبہ میں پناہ گزین ہوئے تو حجاج بن یوسف کی فوج نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگا دی۔ جس سے حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ عباسی خلیفہ معتصم باللہ کے عہد میں ایک قرامطی سردار ابوطاہر حجر اسود اکھاڑ کر بحرین لے گیا اور23 سال بعد فاطمیوں کی مداخلت کی بدولت بھاری تاوان وصول کر کے واپس کیا۔[1]
احادیث میں ذکر
[ترمیم]عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :
بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراھیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہيں اللہ تعالٰی نے ان کے نوراورروشنی کوختم کر دیا ہے اگراللہ تعالٰی اس روشنی کوختم نہ کرتا تو مشرق ومغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 804 )۔ 1 - حجراسود اللہ تعالٰی نے زمین پرجنت سے اتارا ہے ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( حجراسود جنت سے نازل ہوا ) ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 2935 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالٰی نے اسے حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔
2 - حجراسود دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا جسے اولاد آدم کے گناہوں نے سیاہ کر دیا ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( حجراسود جنت سے آیا تودودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنی آدم کے گناہوں نے سیاہ کر دیاہے ) ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) مسنداحمد حدیث نمبر ( 2792 ) اورابن خزيمہ نے صحیح ابن خزيمہ ( 4 / 219 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے، اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالٰی نے فتح الباری ( 3 / 462 ) میں اس کی تقویت بیان کی ہے ۔
ا - شیخ مبارکپوری رحمہ اللہ تعالٰی کہتے ہیں :
مرقاۃ میں کہتے ہیں کہ : یعنی بنی آدم کے چھونے کی بنا پر ان کے گناہوں کے سبب سے سیاہ ہو گیا، اورظاہرتویہی ہوتا ہے کہ اس حدیث کوحقیقت پرمحمول کیا جائے، جبکہ اس میں نہ تو عقل اور نہ ہی نقل مانع ہے۔ دیکھیں تحفۃ الاحوذی ( 3 / 525 ) ۔
ب - حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالٰی کا کہنا ہے :
اوپرگزری ہوئی حدیث پربعض ملحدین نے اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرکوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کیسے کر دیا اورمؤحدین کی اطاعات نے اسے سفید کیوں نہیں کیا؟
جواب میں وہ کہا جاتا ہے جوابن قتیبہ رحمہ اللہ تعالٰی نے کہا ہے :
اگراللہ تعالٰی چاہتا تواس طرح ہوجاتا، اللہ تعالٰی نے یہ طریقہ اورعادت بنائ ہے کہ سیاہ رنگا ہوجاتا ہے اوراس کے عکس نہيں ہو سکتا ۔
ج - اورمحب الطبری کا کہنا ہے کہ :
سیاہ رنگ میں اہل بصیرت کے لیے عبرت ہے وہ اس طرح کہ اگر گناہ سخت قسم کے پتھر پر اثرانداز ہوکر اسے سیاہ کرسکتے ہیں تودل پران کی اثرہونا زيادہ سخت اورشدید ہوگا۔ فتح الباری ( 3 / 463 ) ۔
3 - حجراسود روزقیامت ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حق کے ساتھ استلام کیا ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کے بارے میں فرمایا :
اللہ کی قسم اللہ تعالٰی اسے قیامت کولائے گا تواس کی دوآنکھیں ہوں گی جن سے یہ دیکھے اورزبان ہوگي جس سے بولے اور ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حقیقی استلام کیا ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 961 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2944 ) امام ترمذی نے اس حدیث کوحسن کہا ہے اورحافظ ابن حجرنے فتح الباری ( 3 /462 ) میں اس کی تقویت بیان کی ہے ۔
4 - حجراسود کا استلام یا بوسہ یا اس کی طرف اشارہ کرنا :
یہ ایسا کام ہے جوطواف کے ابتدا میں ہی کیا جاتا ہے چاہے وہ طوا ف حج میں ہو یا عمرہ میں یا پھر نفلی طواف کیا جا رہا ہو ۔
جابربن عبد اللہ رضي اللہ تعالٰی عہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لائے توحجر اسود کا استلام کیا اورپھراس کے دائيں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اورباقی چار میں آرام سے چلے۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جائے ۔
5 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کا بوسہ لیا اورامت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اسے چومتی ہے ۔
حضرت عمر رضي اللہ تعالٰی عنہ حجراسود کے پاس تشریف لائے اوراسے بوسہ دے کرکہنے لگے : مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تونفع دے سکتا اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے، اگرمیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1250 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1720 ) ۔
6 - اگر اس کا بوسہ نہ لیا جاسکے تواپنے ہاتھ یا کسی اورچيز سے استلام کرکے اسے چوما جا سکتا ہے ۔
ا - نافع رحمہ اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما نے حجراسود کا استلام کیا اورپھر اپنے ہاتھ کوچوما، اورفرمانے لگے میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1268 ) ۔
ب - ابوطفیل رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے اورحجر اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کرکے چھڑی کوچومتے تھے۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1275 ) ۔
7 - اگر استلام سے بھی عاجز ہو تو اشارہ کرے اور اللہ اکبرکہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پرطواف کیا توجب بھی حجر اسود کے پاس آتے تواشارہ کرتے اوراللہ اکبر کہتے۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4987 ) ۔
8 - حجراسود کوچھونا گناہوں کا کفارہ ہے :
ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 959 ) امام ترمذی نے اسے حسن اورامام حاکم نے ( 1 / 664 ) صحیح قرار دیا اور امام ذھبی نے اس کی موافقت کی ہے ۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]کعبہ | حطیم | غلاف کعبہ | حجر اسود | ملتزم | میزاب رحمت |
---|
بیرونی روابط
[ترمیم]- حجر اسود کی اہمیتآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islam-qa.com (Error: unknown archive URL)
ویکی ذخائر پر حجر اسود سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ سیرالملوک مصنفہ نظام الملک طوسی