حوا
حوا علیہا السلام | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 3760 ق مء [1] باغ عدن [2][3] |
مدفن | مسجد ابراہیم ، قبرستان اماں حوا |
رہائش | باغ عدن |
شریک حیات | آدم |
اولاد | قابیل (بیٹا) آزورا (بیٹی) ہابیل (بیٹا) شیث (بیٹا) اقلیما بنت آدم (بیٹی)[4][5] |
والد | بغیر ماں ، باپ کے اللہ نے اپنی قدرت سے پیدا کیا |
درستی - ترمیم |
حوا (/ˈiːv/؛ عبرانی: חַוָּה، جدید: Ḥava، Tiberian: Ḥawwā؛ عربی: حَوَّاء، رومنائزڈ: Ḥawwāʾ؛ یونانی: Εὕα، رومنائزڈ: Heúa؛ Hevaܳܘܚ، رومنائزڈ: Heúa; حوا)[6][7] حضرت آدم علیہ السلام کی بیوی۔ اور موجودہ تمام نسل انسانی کی ماں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا۔ جب آنکھ کھول کر حضرت آدم نے انھیں دیکھا تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے ان میں انس و محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی۔ پھر پروردگار نے انھیں ان کے نکاح میں دیا اور جنت میں رہائش کا حکم عطا فرمایا۔ بعض کہتے ہیں کہ آدم ؑ کے جنت میں داخل ہوجانے کے بعد حضرت حوا پیدا کی گئیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ، عبداللہ ابن مسعود وغیرہ صحابہ سے مروی ہے کہ ابلیس کو جنت سے نکالنے کے بعد حضرت آدم ؑ کو جنت میں جگہ دی گئی۔ لیکن تن تنہا تھے اس وجہ سے ان کی نیند میں حضرت حوا کو ان کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ جاگے، انھیں دیکھا تو پوچھا تم کون ہو اور کیوں پیدا کی گئی ہو ؟ حضرت حوا نے فرمایا میں ایک عورت ہوں اور آپ کے ساتھ رہنے اور تسکین کا سبب بننے کے لیے پیدا کی گئی ہو تو فوراً فرشتوں نے پوچھا فرمائیے ان کا نام کیا ہے ؟ حضرت آدم نے کہا " حوا " انھوں نے کہا اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟ فرمایا اس لیے کہ یہ ایک زندہ سے پیدا کی گئی ہیں۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ کی آواز آئی، اے آدم اب تم اور تمھاری بیوی جنت میں با آرام و اطمینان رہو اور جو چاہو کھاؤ۔ لیکن ایک خاص درخت سے روکنا دراصل امتحان تھا۔ بعض کہتے ہیں یہ انگور کی بیل تھی۔ کوئی کہتا ہے۔ گیہوں کا درخت تھا۔ کسی نے سنبلہ کہا ہے۔ کسی نے کھجور، کسی نے انجیر کہا ہے۔ کسی نے کہا ہے اس درخت کے کھانے سے انسانی حاجت ہوتی تھی جو جنت کے لائق نہیں۔ کسی نے کہا ہے، اس درخت کا پھل کھا کر فرشتے ہمیشہ کی زندگی پا گئے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کوئی ایک درخت تھا جس سے اللہ نے روک دیا۔ نہ قرآن سے اس کا تعین ثابت ہوتا ہے نہ کسی صحیح حدیث سے۔ مفسرین میں اختلاف ہے اور اس کے معلوم ہونے سے کوئی اہم فائدہ اور نہ معلوم ہونے سے کوئی نقصان نہیں۔ لہذا اس کی جستجو کی کیا ضرورت ؟ اللہ ہی کو اس کا بہتر علم ہے۔ امام رازی وغیرہ نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے اور ٹھیک بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔ عنھا کی ضمیر کا مرجع بعض نے جنت کہا ہے اور بعض نے شجرہ۔ ایک قرأت فازالھما بھی ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اس جنت سے ان دونوں کو بے تعلق اور الگ کر دیا اور دوسرے معنی یہ بھی ہوئے کہ اسی درخت کے سبب شیطان نے انھیں بہکا دیا۔ [8] [9] [10][11]
سفر ارضی کا آغاز
[ترمیم]لفظ عن سبب کے معنی میں بھی آیا ہے آیت (یوفک عنہ) میں۔ اس نافرمانی کی وجہ سے جنتی لباس اور وہ پاک مکان، نفیس روزی وغیرہ سب چھن گئی اور دنیا میں اتار دیے گئے اور کہہ دیا گیا کہ اب تو زمین میں ہی تمھارا رزق ہے، قیامت تک یہیں پڑے رہو گے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے رہو گے۔ سانپ اور ابلیس کا قصہ، یعنی ابلیس کس طرح جنت میں پہنچا۔ کس طرح وسوسہ ڈالا وغیرہ، اس کے بارے میں لمبے چوڑے قصے مفسرین نے لکھے ہیں لیکن وہ سب بنی اسرائیل کے ہاں کا خزانہ ہے، تاہم ہم انھیں سورة اعراف میں بیان کریں گے کیونکہ اس واقعہ کا بیان وہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہے۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ درخت کا پھل چکھتے ہی جنتی لباس اتر گیا۔ اپنے تئیں ننگا دیکھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے لیکن چونکہ قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے تھے، وہ ایک درخت میں اٹک گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم کیا مجھ سے بھاگتے ہو ؟ عرض کیا نہیں الٰہی میں تو شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! میرے پاس سے چلے جاؤ، مجھے میری عزت کی قسم میرے پاس میرے نافرمان نہیں رہ سکتے، اگر اتنی مخلوق تم میں پیدا کروں کہ زمین بھر جائے اور پھر وہ میری نافرمانی کرے تو یقینا میں اسے بھی نافرمانوں کے گھر میں پہنچا دوں۔ یہ روایت غریب ہے اور ساتھ ہی اس میں انقطاع بلکہ اعضال بھی ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت آدم نماز عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں یہ ایک ساعت ایک سو تیس سال کی تھی۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں نویں یا دسویں ساعت میں حضرت آدم کا اخراج ہوا۔ ان کے ساتھ جنت کی ایک شاخ تھی اور جنت کے درخت کا ایک تاج سر پر تھا۔ سدی کا قول ہے کہ حضرت آدم ہند میں اترے، آپ کے ساتھ حجر اسود تھا اور جنتی درخت کے پتے جو ہند میں پھیلا دیے اور اس سے خوشبودار درخت پیدا ہوئے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہند کے شہر " دھنا " میں اترے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان اترے تھے۔ حسن بصری فرماتے ہیں حضرت آدم ہند میں اور مائی حواہ جدہ میں اتریں اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر دست میساں میں پھینکا گیا اور سانپ اصفہان میں۔عبد اللہ ابن عمر کا قول ہے کہ حضرت آدم صفا پر اور حضرت حوا مروہ پر اترے۔ اترتے وقت دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سر جھکا ہوا تھا اور ابلیس انگلیوں میں انگلیاں ڈالے آسمان کی طرف نظریں جمائے اترا۔ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تمام صفتیں سکھا دیں اور پھلوں کا توشہ دیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ تمام دنوں میں بہتر دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم پیدا کیے گئے، اسی میں جنت میں داخل کیے گئے۔ اور اسی دن نکالے گئے ملاحظہ ہو صحیح مسلم اور نسائی۔ امام رازی فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی وجوہات مضمر ہیں۔ اول تو یہ سوچنا چاہیے کہ ذرا سی لغزش پر حضرت آدم ؑ کو کس قدر سزا ہوئی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ تم گناہوں پر گناہ کیے جاتے ہو اور جنت کے طالب ہو کیا تم بھول گئے کہ تمھارے باپ آدم ؑ کو محض ایک ہلکے سے گناہ پر جنت سے نکال دیا گیا۔ ہم تو یہاں دشمن کی قید میں ہیں، دیکھیے ! کب صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے وطن پہنچیں۔ فتح موصلی کہتے ہیں ہم جنتی تھے، ابلیس کے بہکانے میں آ کر دنیا کی قید میں آ پھنسے، اب سوائے غم و رنج کے یہاں کیا رکھا ہے ؟ یہ قید و بند اسی وقت ٹوٹے گی جب ہم وہیں پہنچ جائیں جہاں سے نکالے گئے ہیں۔ اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم ؑ آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندہء درگاہ ہو چکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا ؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونا منع تھا نہ کہ بطور اہانت اور چوری کے۔ چنانچہ توراۃ میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا۔امام قرطبی رحمہ اللہ علیہ نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور باموقع ہیں۔ [12] [13]
حوا کی پیدائش کس طرح ہوئی؟
[ترمیم]قرآن عزیز میں اس کے متعلق صرف اسی قدر مذکور ہے : { وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا } [14] ” اور اس (نفس) سے اس جوڑے کو پیدا کیا “ یہ نظم قرآنی حوا [ کی پیدائش کی حقیقت کی تفصیل نہیں بتاتی ‘ اس لیے دونوں احتمال ہو سکتے ہیں۔ اوّل یہ کہ حوا [ حضرت آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا ہوئی ہوں جیسا کہ مشہور ہے اور بائبل میں بھی اس طرح مذکور ہے ‘ دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کو اس طرح پیدا کیا کہ مرد کے ساتھ اسی کی جنس سے ایک دوسری مخلوق بھی بنائی جس کو عورت کہا جاتا ہے اور جو مرد کی رفیقہ حیات بنتی ہے۔ آیت کی تفسیر میں محققین کی رائے اس دوسری تفسیر کی جانب مائل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن عزیز صرف حضرت حوا [ کی تخلیق کا ذکر نہیں کر رہا ہے بلکہ ” عورت کی تخلیق کے متعلق “ اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ بھی مرد ہی کی جنس سے ہے اور اسی طرح مخلوق ہوئی ہے ‘ البتہ بخاری ومسلم کی روایتوں میں یہ ضرور آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔ الفاظ یہ ہیں : ( (اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآئِ فَاِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلْعٍ ))[15] عورت کے ساتھ نرمی اور خیرخواہی سے پیش آؤ اس لیے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے “ اس کا مطلب ابن اسحاق نے تو یہ بیان کیا ہے کہ حواء [ آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا کی گئیں ‘ مگر ابن اسحاق سے زیادہ محقق اور نقاد علامہ قرطبی رحمہ اللہ علیہ نے اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ دراصل عورت کو پسلی سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا ہے کہ عورت کی خلقت کی ابتدا پسلی سے کی گئی ہے اس کا حال پسلی ہی کی طرح ہے ‘ اگر اس کی کجی کو سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی تو جس طرح پسلی کے ترچھے پن کے باوجود اس سے کام لیا جاتا ہے اور اس کے خم کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی اسی طرح عورتوں کے ساتھ نرمی اور رفق کا معاملہ کرنا چاہیے۔ ورنہ سختی کے برتاؤ سے خوشگواری کی جگہ تعلق کی شکست و ریخت کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ [16] حضرت آدم (علیہ السلام) جس جنت میں مقیم تھے اور جہاں سے انھیں زمین پر اترنے کا حکم دیا گیا وہ جنت کون سی جنت ہے ؟ ” جنت الماویٰ “ جو بعد قیام قیامت اہل ایمان کا مستقر ہے یا ” جنت ارضی “ جو اسی سرزمین میں کسی بلند پر فضا مقام پر آدم (علیہ السلام) کی حکومت کے لیے بنائی گئی تھی ؟ جمہور علمائے اسلام کا مسلک یہ ہے کہ یہ ” جنت الماویٰ “ ہے جس کا وعدہ آخرت میں مسلمانوں کے لیے کیا گیا ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ آیات و احادیث کا ظاہر اسی پر دلالت کرتا ہے۔ مثلاً { وَ قُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ } [17] ” ہم نے کہا اے آدم (علیہ السلام ) تم اور تمھاری بیوی (حوا علیہا السلام) جنت میں رہو “۔ اس جگہ جنت کو عربی قاعدہ سے ” الجنۃ “ الف لام کے ساتھ ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اسی مشہور جنت کا ذکر ہے جس کو جگہ جگہ قرآن عزیز میں قیام قیامت کے بعد مومنوں کا وطن بتایا گیا ہے ورنہ اگر کسی نئے مقام کا تذکرہ ہوتا تو پہلے اس کی حقیقت کا اظہار ہوتا پھر اس کو جانی پہچانی چیز کی طرح ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا جاتا۔ { اِھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا } [18][19] ” تم وہاں سے ایک ساتھ اترو “
حوا اور آدم علیہ السلام کہاں اتارے گئے
[ترمیم]قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کے صرف جنت سے زمین پر اتارے جانے کا ذکر ہے، لیکن اس کی صراحت نہیں ہے کہ وہ کس جگہ اتارے گئے؟ اسی طرح کسی صحیح حدیث میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے، البتہ بعض صحیح آثارِ صحابہ میں یہ بات آئی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو ہندوستان کی سر زمین پر اتارا گیا۔ اسی طرح تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں مزید صراحت ملتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام ہندوستان میں جزیرۂ سراندیپ میں ایک پہاڑ پر اتارے گئے، جس کا نام بوذ تھا۔ یہ خطہ فی الحال ہندوستان سے الگ ہوکر سری لنکا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور حضرت حوّا علیہا السلام جدہ میں اتاری گئیں۔ لہٰذا یہ باتیں بیان کرنا درست ہے۔ [20] [21]
اولاد
[ترمیم]حضرت آدم علیه السلام اور حوا علیہا السلام کے فرزندوں کے بارے میں ،بہت سے دوسرے تاریخی حوادث اور واقعات کے مانند کوئی قطعی نظریہ موجود نهیں ہے، کیونکہ قابل اعتبار تاریخی کتا بوں میں حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں کے نام اور تعداد کے بارے میں اختلافات پائے جاتے هیں یہ شاید ان کے اور تاریخ کے درج اور تحریر میں آنے کے در میان زمانہ کا طولانی فاصلہ یا ان سب کے نام اہم نه ہونے کی وجہ سے تھا- قاضی ناصر الدین بیضاوی اپنی کتاب " نظام التواریخ" میں حضرت آدم علیه السلام اور حوّا کے فرزندوں کی تعداد کے بارے میں لکھتے هیں : " حوّا جب بھی حاملہ هوتی تھیں ایک بیٹے اور ایک بیٹی کو ایک ساتھـ جنم دیتی تھیں اور هر بطن کی ماده کو دوسرے بطن کے نر کے ساتھـ بیاها دیا جاتا تھا (یعنی ایک بطن کی ماده کو دوسرے بطن کے نر سے شادی کی جاتی تھی) ، وه اس سلسله میں آگے لکھتے ہیں: اس (حوّا) نے ایک سو بیس بطن سے فرزندوں کو جنم دیا اور قابیل چوتھے بطن کا بیٹا تھا- ہابیل کے ہلاک ہونے کے پانچ سال بعد ایک بطن سے آدام کا ایک بیٹا پیدا ہوا اور اس کے ہمراه بیٹی نہیں تھی – اس کا نام " شیث" رکھا گیا اور فر مایا وه ہابیل کے بد لے میں ایک اور مبارک بیٹا ہے اور وه پیغمبر هو گا - اس نظریه کے مطابق حضرت آدم و حوا کے 239 فرزند تھے-[22] امام طبری رحمہ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں اس نظریه کی حسب ذیل تین تشریحیں لکھی هیں :
نمبر 1- بیٹے اور بیٹیوں پر مشتمل 120 فرزند- نمبر 2-چالیس(40) بیٹے اور بیٹیاں- نمبر 3- 25 بیٹے اور 4 بیٹیاں [23]
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ مصنف: ماٹس کنٹور — صفحہ: 7 — ISBN 978-0-87668-229-6
- ↑ http://onlinelibrary.wiley.com/doi/10.1111/1094-348X.00053/pdf
- ↑ http://fineartamerica.com/art/drawings/garden+of+eden/canvas+prints
- ↑ Contextualizing Eve's and Milton's Solitudes in Book 9 of Paradise Lost - Long - 2003 - Milton Quarterly - Wiley Online Library آرکائیو شدہ 2017-08-22 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ Garden Of Eden Drawings Canvas Prints | Fine Art America آرکائیو شدہ 2020-09-08 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ سانچہ:استشهاد بهارفارد دون أقواس, "Creation myths are symbolic stories describing how the universe and its inhabitants came to be. Creation myths develop through oral traditions and therefore typically have multiple versions." "نسخة مؤرشفة"۔ 30 ديسمبر 2016 میں اصل
|archive-url=
بحاجة لـ|url=
(معاونت) سے آرکائیو شدہ - ↑ Holy Bible (NIV): Genesis 3:2–3۔ 6 أكتوبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ تفسیر ابن کثیر سورہ بقرہ آیت 35 ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت
- ↑ تفسیر احکام القرآن تفسیر قرطبی سورہ بقرہ آیت 35
- ↑ "Saints Adam, Eve, and the Christmas Tree" (بزبان انگریزی)۔ 29 يونيو 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2021
- ↑ "Saint Adam and Saint Eve (First Age of the world)" (بزبان انگریزی)۔ 30 يونيو 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2021
- ↑ تفسیر ابن کثیر سورہ بقرہ آیت 35 ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت
- ↑ Dominique Collon (1995)۔ Ancient Near Eastern Art (بزبان انگریزی)۔ University of California Press۔ صفحہ: 213۔ ISBN 9780520203075۔ 18 أغسطس 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2019۔
the strange store' of Adam’s ‘spare rib’ from which Eve was created (Genesis 2:20-3) makes perfect sense once it is realised that in Sumerian the feminine particle and the words for rib and life are all ti, so that the tale in its original form must have been based on Sumerian puns.
- ↑ (النساء : ٤/١)
- ↑ صحیح بخاری ‘ کتاب الانبیاء ‘ باب خلق آدم و ذریتہ ‘ حدیث : ٣٣٣١۔ و صحیح مسلم ‘ کتاب الرضاع ‘ باب وصیۃ بالنساء ‘ حدیث : ١٤٦٦۔
- ↑ (فتح الباری ‘ ج ٦‘ ص ٢٨٣)
- ↑ (البقرۃ : ٢/٣٥)
- ↑ (البقرۃ : ٢/٣٨)
- ↑ سانچہ:استشهاد بدورية محكمة
- ↑ (روح المعاني : 1/236)
- ↑ (مستدرک حاکم، رقم : ٣٩٩٤)
- ↑ انوار التنزيل و سرار التاويل تفسیر بیضاوی تفسیر سورہ بقرہ
- ↑ تاریخ طبری ، تاریخ الامم والملوک ، ج ١، ص ١٤٥