مندرجات کا رخ کریں

غزل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تعارف

[ترمیم]

غزل عربی شاعری سے بنیاد رکھنے والی شاعری کی ایسی قسم ہے جو انداز میں بہت تفصیلی اور قوت اظہار سے لبریز ہوتی ہے۔ غزلیں اکثر عشق حقیقی اور عشق مجازی کے موضوعات پر تحریر کی جاتی ہیں جن کا واسطہ محبت کے رومانوی اظہار، عاشق، درد، ملن، جدائی اور ان کے زیراثر فرد کے حلات، جذبات اور ان کی داستان کی عکاسی کرتی ہیں۔

غزل سازی کا فن شاعری میں بہت قدیم ہے جس کی ابتدا کے جز  7 ویں صدی عربی شاعری میں  موجود ہیں۔ 12ویں صدی میں اس کا پھیلاؤ برصغیر پاک و ہند   میں ولیﷲ اور صوفیا کرام اور غالبِ زمانہ اسلامی سلطنت کے معروف درباروں اور محفلوں کے اثرات کے باعث اور اب شاعری کی یہ اہم قسم  جنوبی ایشیا کی مقامی زبانوں اور ترکی زبان میں کسی نا کسی شکل کی حامل ہے۔ عام طور پر غزل پانچ سے پندرہ اشعار پر مشتمل ہوتی تھی جو ایك دوسرے كے محتاج تو نا ہوتے مگر تجریدی طور پہ وہ غزل كے اور اس كے معنی میں گہرائی كا اضافہ كرتے ہیں۔ ہر شعرغزل كا ایك ہی موضوع اور ایك ہی ترقیب سے جڑا ہوتا ہے۔ ان كی ترقیب پیٹرارچن سانیٹ سے كافی ملتی ہے۔ اسلوب اور مواد كے لحاز سے اپنی دلكش نوعیت كے بدولت رسم غزل اپنے مرکزی موضوعات محبت اور جدائی كا اظہارمؤثر رہتا ہے۔ غزل کی تعریف اور معنویت کے حوالے سے مختلف محققین اور شعرا نے اپنی آرا دی ہیں۔ درج ذیل حوالہ جات آپ کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:

  1. نورالحسن نقوی لکھتے ہیں: "غزل ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں شاعر مختصر مگر جامع انداز میں اپنے جذبات، خیالات اور محسوسات کا اظہار کرتا ہے۔ غزل کا ہر شعر اپنی جگہ ایک مکمل خیال رکھتا ہے، لیکن پوری غزل میں ایک داخلی ربط بھی ہوتا ہے۔" (بحوالہ: اردو شاعری میں غزل کا ارتقا، نورالحسن نقوی، 1983)
  2. جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے: "غزل وہ نغمہ ہے جو عاشق کے دل کی گہرائیوں سے نکل کر ہر حساس دل میں اتر جاتا ہے۔ اس کی اثر آفرینی اور جاذبیت اس کی جان ہے۔" (بحوالہ: اردو شاعری کی روایت، جوش ملیح آبادی، 1955)
  3. رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں: "غزل اردو شاعری کی مقبول ترین صنف ہے، کیونکہ یہ انسانی جذبات کو نہایت خوبصورتی اور نفاست کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ غزل کا ایک ایک شعر الگ کہانی بیان کر سکتا ہے، جو اسے دیگر اصناف سے ممتاز بناتا ہے۔" (بحوالہ: اردو ادب کی تنقیدی جہات، رشید احمد صدیقی، 1970)
  4. شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں: "غزل کا حسن اس کی نغمگی، ایجاز اور تخیل کی بلندی میں ہے۔ ایک اچھی غزل نہ صرف جذبات کو چھوتی ہے بلکہ سننے اور پڑھنے والے کے لیے ایک وجدانی تجربہ بھی بن جاتی ہے۔" (بحوالہ: اردو غزل کے اہم رجحانات، شمس الرحمن فاروقی، 1998)

یہ حوالے غزل کی فنی اور ادبی اہمیت کو مزید واضح کرتے ہیں۔

وقاص اسلم کے مطابق، غزل اردو شاعری کی ایک نمایاں صنف ہے جو مختصر اشعار میں گہرے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتی ہے۔ اس کی خصوصیات میں ایجاز، نغمگی اور تخیل کی بلندی شامل ہیں۔ غزل کا ہر شعر ایک مکمل خیال پیش کرتا ہے، لیکن پوری غزل میں ایک داخلی ربط بھی موجود ہوتا ہے۔ یہ صنف عشق، محبت، فلسفہ، تصوف اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کو خوبصورتی سے بیان کرتی ہے غزل عربی زبان کے لفظ "غزال" سے نکلا ہے جس کے معنی ہے "ہرن"، غزل کی لغوی معنی ہے "عورتوں سے باتیں کرنا،عورتوں کی باتیں کرنا۔ ہرن کی منہ سے شکاری کی ڈر کیوجہ سے نکلنی والی آوازوں کو بھی غزل کہا جاتا ہے۔ غزل اردو شاعری کی مقبول ترین "صنف" سخن ہے۔ غزل اوزان میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے۔ مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع  میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے، جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہوتا ہے۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے، جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے، بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی عام شعر ہی کہلاتا ہے۔

وجہ تسمیہ

[ترمیم]

یار سے پیار کی باتوں کو غزل کہتے ہیں

زلف و رخسار کی باتوں کو غزل کہتے ہیں

غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے کے ہیں۔ چونکہ غزل میں روایتی طور پر وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے اس لیے اس صنفِ شعر کا یہ نام پڑا۔ غزل اس چیخ کو بھی کہا جاتا ہے جو شکار ہوتے ہوئے ہرن کے منہ سے نکلتی ہے۔ اصطلاحِ شاعری میں غزل سے مراد وہ صنفِ نظم ہے جس کا ہر ایک شعر الگ اور مکمل مضمون کا حامل ہو اور اس میں عشق وعاشقی کی باتیں بیان ہوئی ہوں خواہ وہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی۔ تاہم آج کل کی غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ ہر موضوعات پر اظہارِ خیال پیش کیا جاتا ہے۔ غزل کا آغاز فارسی زبان سے ہوا مگر اس کا سراغ عربی تک بھی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ عربی صنف قصیدہ میں کے تشبیب نامی حصے ہی غزل کی ابتدا ہوئی۔

غزل اور اردو

[ترمیم]

غزل کی اردو ادب میں کامیابی اور پسندیدگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ہر دور میں اہلِ اردو کے جذبات و احساسات کا ساتھ نبھانے میں کامیاب رہی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور داخلی و خارجی اتار چڑھاؤ کے باوجود اردو شاعر کم و بیش ہر قسم کے تجربات کامیابی سے غزل میں بیان کرتے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سی اصناف مثلاً قصیدہ، مرثیہ اور مثنوی وغیرہ رفتہ رفتہ قبولِ عام کے درجے سے گر گئیں مگر غزل اپنی مقبولیت کے لحاظ سے ہنوز وہیں کی وہیں ہے۔ اردو غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا نمائندہ جس نے اس کو باقاعدہ رواج دیا ولی دکنی تھا۔ لیکن ولی سے غزل کاآغاز نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے ہمیں دکن کے بہت سے شعراءکے ہاں غزل ملتی ہے جن میں قلی قطب شاہ، نصرتی، غواصی اور ملا وجہی شامل ہیں۔ تاہم ولی وہ پہلا شخص ضرور تھا جس نے پہلی بار غزل میں مقامی تہذیبی قدروں کو سمویا۔ غزل کی ایک قسم مسلسل غزل ہے جس میں شاعر ایک ہی خیال کو تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اقبال، حسرت موہانی اور کلیم عاجز کے یہاں تسلسل غزل کی اچھی مثالیں مل جاتی ہیں۔

غزل اور نظم میں فرق

[ترمیم]

غزل اور نظم میں بنیادی دو فرق ہیں:

  1. غزل کا ہر شعر ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے اور فی نفسہٖ مکمل ہوتا ہے ۔[1]
  2. غزل کا کوئی عنوان نہیں ہوتا جبکہ نظم اپنے موضوع کے موافق باقاعدہ عنوان رکھتی ہے ۔

اہم فارسی اور اردو غزل گو

[ترمیم]

فارسی اور اردو زبان میں غزل کہنے والوں میں شامل ہیں؛ حافظ شیرازی، ولی دکنی، مرزا اسد اللہ خان غالب، مير تقی میر، مومن خان مومن، داغ دہلوی، حیدرعلی آتش، جانثار اختر، خواجہ میر درد، جون ایلیا، فیض احمد فیض، احمد فراز، فراق گورکھپوری محمد اقبال، شکیب جلالی، ناصر کاظمی، ساحر لدھیانوی، حسرت موہانی، مخدوم محی الدین، جگر مراد آبادی، مولانا انعام تھانوی، ظفر اقبال، منیر نیازی، محمد رفیع سودا، قتیل شفائی، احسان سہگل، مجروح سلطانپوری، ولی دکنی اور محمد ابراہیم ذوق۔ کلیم عاجز، عمار اقبال

غزل گلوکار

[ترمیم]

اہم غزلیہ گلوکار:

گائیکی غزلوں کے لیے مشہور:

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حواشی

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]

بیرونی روابط

[ترمیم]